17- اگست 1988

لیاقت علی ایڈووکیٹ

Advocate Liaqat Ali
Advocate Liaqat Ali

بدھ 17۔اگست1988معمول کاحبس زدہ دن تھا۔ فضا میں گرداوربادل باہم گھل مل گئے تھے۔ بعد ازدوپہرمیں معمول کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سےفارغ ہوکر گھر پہنچا تو کھانا کھانے کے بعد میرے بیٹےسرمد نےحسب معمول باہرجانےکی ضد شروع کردی۔سرمد کی عمراس وقت دو سال تھی۔ ہرروزجب میں کچہری سے گھر آتا تووہ موٹرسائیکل پرباہرکا ایک چکر ضرورلگایا کرتا تھا اس دن بھی اس نے باہر جانےکامطالبہ کیااورمیں اسےموٹرسائیکل پرباہرلےکرباہرچلا گیا۔ہمارا گھربادامی باغ پھل منڈی کے قریب ہی تھا وہاں سے میں نےکچھ پھل خریدااورجلدی جلدی اسے گھر واپس لے آیا کیونکہ مجھےاس شام اپنے سیاسی دوستوں سےملنےجاناتھا جو لاہور باہر سے آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں ہم نے پاکستان سوشلسٹ پارٹی میں علم بغاوت بلند کر رکھا تھا اوراس کی توڑ پھوڑ کے نیتجےمیں اپنا ایک علیحدہ گروپ بنانے میں کامیاب ہوچکے تھے ۔ ہمارے گروپ کے لیڈرز انیس ہاشمی اورعابد حسن منٹو تھے۔ اس وقت تک ہمارا گروپ سوشلسٹ پارٹی عابد حسن منٹو گروپ کہلاتا تھا اور ہم چاہتے تھے کہ جتنا جلد ہوسکےہم گروپ سے ایک پارٹی کی شکل اخیتارکرلیں۔ یہ پارٹی کی تشکیل پرغوروخوص کے لئےلاہورمیں پاکستان بھر سے اپنے خیال دوستوں اورساتھیوں کی ایک میٹنگ کا اہتمام ہم نے 19۔اگست کیا ہوا تھا۔ مغرب سے کچھ وقت پہلے میں غسل خانے سے نہا کر باہر نکلا اور دھوتی باندھ رہا تھا کہ صحن میں رکھے بلیک وائٹ ٹی۔وی کی سکرین سے تصویر غائب ہوگئی۔ چند لمہوں کے لئے تو کچھ سمجھ نہ آئی یہ کیا ہوگیا ہے۔ شائد لائٹ چلی گئی ہو جس کی وجہ سے تصویر سکرین پر نمودار نہیں ہورہی۔ لیکن چند ہی ساعتوں بعد ٹی ۔وی سکرین پر اظہر لودھی نمودار ہوئے۔ اظہر لودھی اپنے ناظرین کی نظروں میں اتنے ہی قابل نفرت تھے جتنا کہ جنرل ضیا پاکستان کے وسیع تر عوام کے لئے تھا۔ اظہرلودھی محض پروفیشنل نہیں تھے وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے بڑھ کر اپنے آقاوں کی خدمت کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے سکرین پر نمودار ہوتے ہی روندھی ہوئی آوازمیں جنرل ضیا اور ان کے اکتیس ساتھیوں کی ’شہادت‘ کا اعلان کیا۔ یہ خبرسننےکی دیرتھی کہ میں نے اسی وقت کپڑے تبدیل کئےاورسب کچھ چھوڑچھاڑکرموٹر سائیکل کو دوڑاتا ہوا مال روڈ پردیال سنگھ مینشن میں واقع شیزان ریسٹورنٹ پہنچا۔ شیزان ان دنوں سیاسی کارکنوں کےباہم میل جول کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ میں ب پہنچا تو شیزان میں دروازے کے ساتھ میزپرچوہدری فتح محمد( ٹوبہ ٹیک سنگھ) اورڈاکٹراللہ داد لونی( سبی) بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں نئی پارٹی کی تشکیل کے لئے منعقد ہونے والی میٹنگ میں شرکت کے لئےلاہورآئے ہوئے تھے۔ میں نے جاتے ہی انھیں خبر سنائی کہ جنرل ضیا مرگیا ہے۔ وہ یہ خبر سن کرحران ہوگئے اور انھیں اس پر بالکل یقین نہیں آرہا تھا۔ میں نے انھیں کہا کہ شیران کی اوپر والی منزل پر پریس کلب میں ٹیلی ویژن موجود ہے چلیں وہ چل کر دیکھ لیں جنرل ضیا واقعی مرچکا ہے۔ ان دنوں پریس کلب ابھی تک اخباری کارکنوں کی ٹریڈ یونینز کا متبادل نہیں بناتھا۔ پریس کلب کی بجلی عام طور پر بل کی عدم ادائیگی کی بنا پر کٹ جاتی تھی۔پریس کلب کے انچارج ایک صاحب انیس ملک تھے۔ ان کے بارے میں انتا ہی معلوم تھا کہ وہ کسی صحافی کے بھائی ہیں وہ وہاں کپی بیچتے اور پیتے تھے۔ نستعلیق انسان تھے۔ جالب، چوہدری انور مرحوم اور ان کے دیگر دوست احباب انیس ملک کے مستقل گاہگ اور دوست تھے۔ اگر کسی کے کپی کی مطلوبہ قیمت نہیں بھی ہوتی تھی وہ ادھار پر بھی دے دیا کرتے تھے۔ میں چوہدری فتح محمد اور ڈاکٹر اللہ داد لونی کو لے کر پریس کلب چلا گیا۔انیس خان مدہوش اندھیرے میں بیٹھا ہوئے تھے میں نے ان سے درخواست کی انیس صاحب ٹیلی ویژن چلا دیں انھوں نے کہا کہ چھوڑو ٹی۔وی اس میں بک بک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں نے کہا خاں صاحب آج بک بک نہیں ہے آج جنرل ضیا کی موت کی خبر ہے وہ یکد م صوفے سے اٹھے اور انھوں کمرے کی لائٹ جلائی اور ٹیلی ویژن آن کردیا۔ٹیلی ویژن پر بار بار بہاولپور کے واقعہ کی خبر چل رہی تھی۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھے۔ ہم نے جمعہ 19۔اگست کو نئی پارٹی کی تشکیل پر غور و خوص کے لئے کسان ہال لاہور میں جو اجلاس رکھا تھا اس کو یوم نجات میں بدل دیا اور 19۔اگست کو ہم نے جلسہ کیا جس میں لاہور کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *